Sifeen sayed Mohsin Naqvi

جنگ صفین ۔۔۔
نثر بہ زبان سید محسن نقوی شہید❤❤❤❤❤
یکم ربیع الاول اڑتیس ہجری کی حیاء آلود صُبح کے غیرت مند سُورج نے دجلہ کے ساحل سے سر ٹکراتی ہوئی مُوجُوں کی آبی نقابیں سِرکا کے صفین کے میدان کو دیکھا
دجلہ کے ہیں دو کنارے ۔
دجلہ کے ایک کنارے پر بنو اُمیہ کے دسترخوان کی نچڑی ہوئی ہڈیاں جنجھوڑ کر پلنے والے کرائے کے ایک لاکھ اڑتالیس ہزار قاتلوں کا لشکر جس کا کمانڈر یز ید لع کا بھی باپ
دجلہ کے دوسرے کنارے پر صرف پچیس ہزار کے قریب فرزندان توحید کا وہ لَشکَرِ جَرار جس کا چیف آف دی آرمی سٹاف سلطنت غیرت کے مطلق العنان سلطان عمرانؑ کا غیرت مند بیٹا علیؑ
علیؑ اللہ کا ارادہ بن کر اٹھا
مالک اشتر
جی وارث منبر
ہماری سواری لاؤ
مالک اشتر سواری لایا
علیؑ نے پہلا قدم اٹھایا ارض و سماء کا سر چکرایا
علیؑ نے دوسرا قدم اٹھایا  کائنات میں زلزلہ آیا
علیؑ نے تیسرا قدم اٹھایا تثلیث پرستوں پہ قیامت ٹوٹی
علیؑ نے چوتھا قدم اٹھایا  عیسیٰؑ نے علیؑ کی زیارت کے لئے چوتھا آسمان چھوڑ دیا
علیؑ نے پانچواں قدم اٹھایا پنجتن کی غیرت سمٹ کر علیؑ کے چہرے پہ نمودار ہوئی
علیؑ کا دایاں پاؤں رکاب میں آیا قُرآن نے الحمد کا نظرانہ پیش کیا
علیؑ کا بایاں پاؤں رکاب میں آیا قُرآن نے یٰسین کا نظرانہ پیش کیا
علیؑ گھوڑے کی زین پہ آئے قُرآن نے والناس پڑھ کے علیؑ پہ دم کیا
علیؑ نے گھوڑے کی باگ اٹھائی علیؑ کے چہرے کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر مُوت کا فرشتہ نازل ہوا عزرائیلؑ علیؑ کے قدم چُوم کے کہتا ہے مولا تیرا جلال بتاتا ہے آج کائنات کی خیر نہیں مولا اگر تو حُکم دے تو ایک لمحے میں معاویہ کے ایک لاکھ اڑتالیس ہزار کے لشکر کی روحیں قبض کر کے تیری نعلین پر چھڑک دوں

علیؑ کہتے ہیں کسی کا مارا ہوا شکار کھانا علیؑ کی بھی توہین علیؑ کی اولاد کی بھی توہین
علیؑ کا گھوڑا خراما خراما چلتا لشکر میں آیا  علیؑ گھوڑے کی زین سے ایسے اترے جیسے مُحمد ؐ معراج کی رات وآپس آئے
علیؑ نے اپنے لشکر کو دیکھا علؑی کہتے میرے جگر دارو میرے ملنگو میرے شیرو آج مُجھ علیؑ کا دل چاہتا کے معاویہ کے لشکر پر پہلا حملہ میں علیؑ نہیں بلکہ میرا کوئی بیٹا کر کے کائنات پہ ثابت کر دے  کہ علیؑ بڑا ہو یا چھوٹا علیؑ ہوتا ہے
حسنؑ آگے بڑھے اجازت نہیں ملی حسینؑ آگے بڑھے اجازت نہیں ملی
کہا حسنؑ اور حسینؑ ، حسنؑ اور حسینؑ تم مباہلہ کے دن سے مُحمدؐ کے بیٹے ہو میں نے اپنے بیٹوں کو بلایا ہے
محمد حنفیہؑ آگے بڑھے اجازت نہیں ملی
عونؑ بن علیؑ آگے بڑھے اجازت نہیں ملی
علیؑ نے دور کھڑے اپنے گیاراں سالہ بیٹے عباسؑ کو دیکھا
عباس ؑ
جی بابا
عباسؑ آج میں چاہتا ہوں میدان میں تو جا جو حکم بابا
حسین ؑ نے امامہ باندھا
حسنؑ نے خوز سر پہ رکھا
محمد حنفیہ نے زرہ پہنائی
عون بن علیؑ نے نعلین پیش کئے
یاں علیؑ بادشاہ نے عباسؑ کو زین پہ سوار کیا
عباس میدان کو جانے لگا
علیؑ فرماتے ہیں عباسؑ نہ کبھی میدان میں گیا نہ جنگ کی نہ میدان حرب کے دستور سے واقف پتا بھی ہے جنگ کیسے کرنی ہے
عباسؑ مسکرا کے کہتے ہیں بابا سچ ہے نہ کبھی میدان میں گیا نہ کبھی جنگ کی نہ کبھی زرہ پہنی نہ  کبھی تلوار چلائی نہ میدان حرب کے دستور سے واقف ہوں  لیکن بابا ایک بات تو طے ہے  بیٹا تو تُجھ علیؑ کا ہوں نا
بابا جانتا سب کچھ ہوں اگر آپ اپنی زبانی بتائیں تو زیادہ خوشی ہو گی
علی ؑ بادشاہ فرماتے ہیں عباسؑ یاد رکھ میدان میں پہنچ کے مُٹھیاں بینچھ لینا دانتوں پہ دانت جما لینا چہرے سے خوف نمایاں نہ ہو
عباسؑ یاد رکھ میدان میں جا کے
میمنہ پے حملہ کرنا میسرہ الٹتی نظر آئے
پہلے پہ وار کرنا آخری بھاگتا نظر آئے
عباس ؑ کہتے بابا وعدہ ہو گیا میدان جا کے میرا لڑنے کا انداز یہ ہو گا کہ پہلے کو قتل کرنے کے بعد آخری تک اتنی جلدی پہنچوں گا کہ پہلے اور آخری کا سر ایک ساتھ زمین پہ آئے گا
اور تاریخ یہ ہی بتاتی ہے کے اتنا شدید حملہ تھا کہ علیؑ کے بد ترین دشمن نے بھی ایک دفع اپنا ہاتھ اٹھا کے سر پہ رکھ کے دیکھا ضرور کہ سر ہے بھی یا  نہیں
عباسؑ نے عروس تیغ سے تیغ کو بے نیام کیا
عباسؑ نے تلوار کو دیکھا تلوار نے عباسؑ کو دیکھا عباسؑ نے پھر تلوار کو دیکھا تلوار نے پھر عباسؑ کو دیکھا
عباسؑ کو تلوار میں اپنا چہرہ نظر آیا عباسؑ کو اپنے آپ پہ پیار آیا
ذوالفقار کہتی ہے مولا میرے قبضے کی نرمی تیرے ہاتھ کی گرمی کو محسوس کر رہی ہے کرنا کیا ہے
عباسؑ کہتے ہیں تو جانتی ہے نہ میری پہلی لڑائی ہے پہلا حملہ ہے تلوار کہتی ہے مولا جانتی سب کچھ ہوں آپ بتائیں
عباسؑ کہتے ہیں جانتی سب کُچھ ہے تو پھر سُن
دُخترِ برقِ رنج و محن میں ہن  بن کے تن ہر بدن میں اجل کی اگن گھول دے
لشکروں کا جگر چیر مستی میں آ زلزلوں کی طرح گھن گھنن گھول دے
دشمنوں کے لہو کی ہر موج میں اپنے ماتھے کی ہر اک شکن گھول دے
اپنے اعدا کے سر آسماں پہ اُڑا آبِ دجلہ میں ان کے کفن گھول دے
دیکھ بزمِ شجاعت کا ہر تاجور تیرے نزدیک ہے اور میرے پاس ہے
یوں لڑیں دشمنوں کو گماں تک نہ ہو یہ علیؑ لڑ رہا ہے کہ عباسؑ ہے
میمنہ میں اتر میسرہ سے اُبھر قلبِ لشکر پہ بجلی گرا جھوم   
کر
دشمنانِ علیؑ کے پرخچے اُڑا اِن کی لاشوں کو دوزخ کا مقسوم کر
بن کے زہرِ اجل آج میداں میں ڈھل میرے بابا کا نقشِ قدم چوم کر
اب نقابیں الٹ کر پلٹ دے صفیں ہر منافق کا شجرہ بھی معلوم کر
دیکھ سستی نہ کر موت کی ہمسفر ہر طرف سے دعاؤں کی برسات ہے
تیری ہر ضرب پہ آج خیبر شکن داد دینے کو آئے تو پھر بات ہے
سب زمینیں ، شجر ، بستیاں ، رہگزر رقص کرتی ہوائیں ، سمندر ترے
آج کی شب ستاروں کے سب ذائقے ، جگنوؤں کی قطاروں کے اندر ترے
موت کی دیویاں ہیں کنیزیں تری ، زندگی کے سجیلے سکندر ترے
تیرے خالق کی نصرت ترے ساتھ ہے اور دعا گو ہمارے قلندر ترے
چھین لے دشمنوں کی یہ بینائیاں ، روزِ روشن میں نازل سیہ رات کر
زندگی کیا ہے خود موت پاؤں پڑے  آج چنگاریوں کی وہ برسات کر
سن کسی کی نہ سن ایک ہی دُھن کو بُن اور چُن چُن کے مغرور سرکاٹ دے
سنسناتی ہوی سب سروں سے گُزر وار سینے پہ کر اور جِگر کاٹ دے
نوک سے روک لے وقت کی گردشیں دستِ شام و وجودِ سحر کاٹ دے
آج جبرئیلؑ بھی پر بچھائے اگر تو رعایت نہ کر اس کے  پر کاٹ دے
کبریا کا غضب بن کے اُترا ہوں میں میرے چہرے پہ جذبات کا رنگ ہے
میرے قبضے میں نبضیں ہیں تقدیر کی میری تاریخ کی اولیں جنگ ہے
شہید محسن نقوی
Share on Whatsapp

Comments

Popular posts from this blog

Eid e Zehra 2019 || Eid e Shuja history in urdu || Shia ki Ajeeb eid

Shia Wudu step by step

Mola Ali as ka bagair alaf ky khutba in arbic and urdu translation