Kia Hazrat Adam as ki passali sy hazrat hawa ko paida kia gia tha? Shia sunni mukammal tehqeeq


کیا عورت مرد کی پسلی سے بنی ہے؟
﷽
سب سے پہلا جو اس بات کا ذکر ملتا ہے وہ تورات میں ہے کہ آدم علیہ السلام کی پسلی سے حواء علیہا السلام کو بنایا گیا، وہ یہ ہے:
וַיַּפֵּל֩ יְהוָ֨ה אֱלֹהִ֧ים ׀ תַּרְדֵּמָ֛ה עַל־הָאָדָ֖ם וַיִּישָׁ֑ן וַיִּקַּ֗ח אַחַת֙ מִצַּלְעֹתָ֔יו וַיִּסְגֹּ֥ר בָּשָׂ֖ר תַּחְתֶּֽנָּה׃ וַיִּבֶן יְהוָה אֱלֹהִים אֶת-הַצֵּלָע אֲשֶׁר-לָקַח מִן-הָאָדָם, לְאִשָּׁה; וַיְבִאֶהָ, אֶל-הָאָדָם.
اور خُداوند خُدا نے آدمؔ پر گہری نِیند بھیجی اور وہ سو گیا اور اُس نے اُسکی پسلیوں میں ایک کو نِکال لِیا اور اُسکی جگہ گوشت بھر دِیا۔ اور خُداوند خُدا اُس پسلی سے جو اُس نے آدمؔ سے نکلالیِ تھی ایک عَورت بنا کر اُسے آدمؔ کے پاس لایا۔(1)
لہذا ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس عقیدے کی جڑ اور بنیاد یھودیوں کے قصے ہیں، سنی احادیث میں بھی یہ بات ملتی ہے مثلا بخاری کی حدیث ہے:
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَمُوسَى بْنُ حِزَامٍ، قَالاَ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ مَيْسَرَةَ الأَشْجَعِيِّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ، فَإِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَىْءٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلاَهُ، فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسَرْتَهُ، وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، عورتوں کے بارے میں میری وصیت کا ہمیشہ خیال رکھنا ، کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے ۔ پسلی میں بھی سب سے زیادہ ٹیڑھا اوپر کا حصہ ہوتا ہے ۔ اگر کوئی شخص اسے بالکل سیدھی کرنے کی کوشش کرے تو انجام کار توڑ کے رہے گا اور اگر اسے وہ یونہی چھوڑ دے گا تو پھر ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہ جائے گی ۔ پس عورتوں کے بارے میں میری نصیحت مانو ، عورتوں سے اچھا سلوک کرو ۔ (2)
ادھر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شیعہ مصادر میں بھی یہی بات موجود ہے البتہ ایسی روایات کی اسناید ضعیف ہیں اور بعید نہیں کہ اگر آئمہ علیہم السلام نے ایسا کہا بھی تو وہ تقیہ میں تھا، کیونکہ ہمارے ہاں اس سے بالکل متضاد احادیث بھی ملتی ہیں جس میں آئمہ علیہم السلام نے اس بات کا رد کیا کہ عورت کو پسلی سے بنایا گیا، ایک مثال، بسند صحیح عیاشی نے تفسیر میں نقل کیا:
عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِی الْمِقْدَامِ عَنْ أَبِیهِ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیه السلام مِنْ أَیِّ شَیْ ءٍ خَلَقَ اللَّهُ حَوَّاءَ فَقَالَ أَیُّ شَیْ ءٍ یَقُولُ هَذَا الْخَلْقُ قُلْتُ یَقُولُونَ إِنَّ اللَّهَ خَلَقَهَا مِنْ ضِلْعٍ مِنْ أَضْلَاعِ آدَمَ فَقَالَ کَذَبُوا کَانَ یُعْجِزُهُ أَنْ یَخْلُقَهَا مِنْ غَیْرِ ضِلْعِهِ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاکَ یَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ مِنْ أَیِّ شَیْ ءٍ خَلَقَهَا فَقَالَ أَخْبَرَنِی أَبِی عَنْ آبَائِهِ علیهم السلام قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَکَ وَ تَعَالَی قَبَضَ قَبْضَةً مِنْ طِینٍ فَخَلَطَهَا بِیَمِینِهِ وَ کِلْتَا یَدَیْهِ یَمِینٌ فَخَلَقَ مِنْهَا آدَمَ وَ فَضَلَتْ فَضْلَةٌ مِنَ الطِّینِ فَخَلَقَ مِنْهَا حَوَّاءَ
عمرو بن ابی المقدام سے، جس نے اپنے والد (ثابت بن ہرمز ابو المقدام) سے روایت کی جس نے کہا کہ میں نے امام الباقر علیہ السلام سے سوال کیا کہ الله ﷻ نے حواء علیہا السلام کو کس چیز سے خلق کیا تھا؟ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ لوگ کیا کہتے ہیں اسکے متعلق؟ میں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ الله ﷻ نے حواء علیہا السلام کو آدم علیہ السلام کی پسلی میں سے ایک پسلی سے بنایا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ انہوں نے جھوٹ بولا! کیا الله ﷻ اس پر قادر نہ تھا کہ انکو بغیر پسلی کے بناتا؟ میں نے عرض کیا، میں آپ پر قربان جاؤں یا بن رسول الله ﷺ، الله ﷻ نے انکو کس چیز سے خلق کیا تھا؟ اما علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی اپنے ابا و اجداد سے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ الله تبارک و تعالی نے کچھ مٹی کو اپنے ہاتھ میں لیا اور اپنے دائیں ہاتھ سے اسکو مخلوط کیا، اور اسکے دونوں ہاتھ ہی دائیں ہیں، پھر اس سے آدم علیہ السلام کو بنایا، پھر جو مٹی باقی رہہ گئی اس سے حواء علیہا السلام کو بنایا۔ (3)
یعنی معتبر اہل تشیع روایات میں یہی موجود ہے کہ حواء علیہا السلام کی خلقت بھی مٹی میں سے ہی ہوئی ہے نہ کہ آدم علیہ السلام کی پسلی سے۔ اور جو بھی شیعہ مصادر میں پسلی والی روایات ہیں وہ ضعیف الاسناد ہیں اور قابل اعتبار نہیں۔ بعض کے مطابق قرآن نے جو کہا “الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا” یعنی جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا پھر اس ہی میں سے اسکا جوڑا بنایا (4)، بعض اس مراد لیتے ہیں کہ پسلی والی بات ثابت ہوتی ہے مگر یہ ثابت نہیں ہے اور صحیح احادیث سے متضاد ہے اور بعض مفسرین جیسے علامہ طباطبائی نے کہا ہے کہ اس سے ثابت نہیں ہوتے کہ پسلیوں سے بنایا (5)، ہاں ان آیات کے ظاہری مفہوم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام پہلے خلق ہوئے اسکے بعد حواء علیہا السلام۔ بظاہر یہ پسلی والا قصہ اسلامی مآخذ میں اور اسلام میں اسرائیلات کی وجہ سے داخل ہوا جیسا کہ اور بہت سی خرافات اور قصے اسلام میں داخل ہوئے اس وجہ سے جنکا عقل اور قرآن و صحیح احادیث سے کوئی واسطہ ہی نہیں، جیسے پسلی والی بات یا الله ﷻ کا آدم علیہ السلام کو اپنی صورت میں بنایا جو کہ ایک اور بات ہے جو تورات میں ہے اور بخاری میں بھی اور ایسی اور بہت باتیں ہیں جنکو کعب الاحبار، وہب ابن منبہ اور اس جیسوں نے روایت کیا۔ الغرض ان باتوں کی جڑ اسرائیلات ہیں جنکو اہمیت نہیں دی جانی چاہئیے اور مسترد کیا جانا چاہئیے جب عقل سے اور صحیح احادیث سے موافقت نہ رکھتی ہوں۔
(1) التوراة، کتاب التکوین، باب 2، آیات 21 اور 22
(2) صحيح البخاري، رقم الحديث: 3331
(3) تفسير العياشي، ج 1، ص 216
(4) سورة النساء، آیت 1
(5) تفسير الميزان، ج 4، ص 136
﷽
سب سے پہلا جو اس بات کا ذکر ملتا ہے وہ تورات میں ہے کہ آدم علیہ السلام کی پسلی سے حواء علیہا السلام کو بنایا گیا، وہ یہ ہے:
וַיַּפֵּל֩ יְהוָ֨ה אֱלֹהִ֧ים ׀ תַּרְדֵּמָ֛ה עַל־הָאָדָ֖ם וַיִּישָׁ֑ן וַיִּקַּ֗ח אַחַת֙ מִצַּלְעֹתָ֔יו וַיִּסְגֹּ֥ר בָּשָׂ֖ר תַּחְתֶּֽנָּה׃ וַיִּבֶן יְהוָה אֱלֹהִים אֶת-הַצֵּלָע אֲשֶׁר-לָקַח מִן-הָאָדָם, לְאִשָּׁה; וַיְבִאֶהָ, אֶל-הָאָדָם.
اور خُداوند خُدا نے آدمؔ پر گہری نِیند بھیجی اور وہ سو گیا اور اُس نے اُسکی پسلیوں میں ایک کو نِکال لِیا اور اُسکی جگہ گوشت بھر دِیا۔ اور خُداوند خُدا اُس پسلی سے جو اُس نے آدمؔ سے نکلالیِ تھی ایک عَورت بنا کر اُسے آدمؔ کے پاس لایا۔(1)
لہذا ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس عقیدے کی جڑ اور بنیاد یھودیوں کے قصے ہیں، سنی احادیث میں بھی یہ بات ملتی ہے مثلا بخاری کی حدیث ہے:
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَمُوسَى بْنُ حِزَامٍ، قَالاَ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ مَيْسَرَةَ الأَشْجَعِيِّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ، فَإِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَىْءٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلاَهُ، فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسَرْتَهُ، وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، عورتوں کے بارے میں میری وصیت کا ہمیشہ خیال رکھنا ، کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے ۔ پسلی میں بھی سب سے زیادہ ٹیڑھا اوپر کا حصہ ہوتا ہے ۔ اگر کوئی شخص اسے بالکل سیدھی کرنے کی کوشش کرے تو انجام کار توڑ کے رہے گا اور اگر اسے وہ یونہی چھوڑ دے گا تو پھر ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہ جائے گی ۔ پس عورتوں کے بارے میں میری نصیحت مانو ، عورتوں سے اچھا سلوک کرو ۔ (2)
ادھر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شیعہ مصادر میں بھی یہی بات موجود ہے البتہ ایسی روایات کی اسناید ضعیف ہیں اور بعید نہیں کہ اگر آئمہ علیہم السلام نے ایسا کہا بھی تو وہ تقیہ میں تھا، کیونکہ ہمارے ہاں اس سے بالکل متضاد احادیث بھی ملتی ہیں جس میں آئمہ علیہم السلام نے اس بات کا رد کیا کہ عورت کو پسلی سے بنایا گیا، ایک مثال، بسند صحیح عیاشی نے تفسیر میں نقل کیا:
عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِی الْمِقْدَامِ عَنْ أَبِیهِ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیه السلام مِنْ أَیِّ شَیْ ءٍ خَلَقَ اللَّهُ حَوَّاءَ فَقَالَ أَیُّ شَیْ ءٍ یَقُولُ هَذَا الْخَلْقُ قُلْتُ یَقُولُونَ إِنَّ اللَّهَ خَلَقَهَا مِنْ ضِلْعٍ مِنْ أَضْلَاعِ آدَمَ فَقَالَ کَذَبُوا کَانَ یُعْجِزُهُ أَنْ یَخْلُقَهَا مِنْ غَیْرِ ضِلْعِهِ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاکَ یَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ مِنْ أَیِّ شَیْ ءٍ خَلَقَهَا فَقَالَ أَخْبَرَنِی أَبِی عَنْ آبَائِهِ علیهم السلام قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَکَ وَ تَعَالَی قَبَضَ قَبْضَةً مِنْ طِینٍ فَخَلَطَهَا بِیَمِینِهِ وَ کِلْتَا یَدَیْهِ یَمِینٌ فَخَلَقَ مِنْهَا آدَمَ وَ فَضَلَتْ فَضْلَةٌ مِنَ الطِّینِ فَخَلَقَ مِنْهَا حَوَّاءَ
عمرو بن ابی المقدام سے، جس نے اپنے والد (ثابت بن ہرمز ابو المقدام) سے روایت کی جس نے کہا کہ میں نے امام الباقر علیہ السلام سے سوال کیا کہ الله ﷻ نے حواء علیہا السلام کو کس چیز سے خلق کیا تھا؟ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ لوگ کیا کہتے ہیں اسکے متعلق؟ میں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ الله ﷻ نے حواء علیہا السلام کو آدم علیہ السلام کی پسلی میں سے ایک پسلی سے بنایا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ انہوں نے جھوٹ بولا! کیا الله ﷻ اس پر قادر نہ تھا کہ انکو بغیر پسلی کے بناتا؟ میں نے عرض کیا، میں آپ پر قربان جاؤں یا بن رسول الله ﷺ، الله ﷻ نے انکو کس چیز سے خلق کیا تھا؟ اما علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی اپنے ابا و اجداد سے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ الله تبارک و تعالی نے کچھ مٹی کو اپنے ہاتھ میں لیا اور اپنے دائیں ہاتھ سے اسکو مخلوط کیا، اور اسکے دونوں ہاتھ ہی دائیں ہیں، پھر اس سے آدم علیہ السلام کو بنایا، پھر جو مٹی باقی رہہ گئی اس سے حواء علیہا السلام کو بنایا۔ (3)
یعنی معتبر اہل تشیع روایات میں یہی موجود ہے کہ حواء علیہا السلام کی خلقت بھی مٹی میں سے ہی ہوئی ہے نہ کہ آدم علیہ السلام کی پسلی سے۔ اور جو بھی شیعہ مصادر میں پسلی والی روایات ہیں وہ ضعیف الاسناد ہیں اور قابل اعتبار نہیں۔ بعض کے مطابق قرآن نے جو کہا “الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا” یعنی جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا پھر اس ہی میں سے اسکا جوڑا بنایا (4)، بعض اس مراد لیتے ہیں کہ پسلی والی بات ثابت ہوتی ہے مگر یہ ثابت نہیں ہے اور صحیح احادیث سے متضاد ہے اور بعض مفسرین جیسے علامہ طباطبائی نے کہا ہے کہ اس سے ثابت نہیں ہوتے کہ پسلیوں سے بنایا (5)، ہاں ان آیات کے ظاہری مفہوم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام پہلے خلق ہوئے اسکے بعد حواء علیہا السلام۔ بظاہر یہ پسلی والا قصہ اسلامی مآخذ میں اور اسلام میں اسرائیلات کی وجہ سے داخل ہوا جیسا کہ اور بہت سی خرافات اور قصے اسلام میں داخل ہوئے اس وجہ سے جنکا عقل اور قرآن و صحیح احادیث سے کوئی واسطہ ہی نہیں، جیسے پسلی والی بات یا الله ﷻ کا آدم علیہ السلام کو اپنی صورت میں بنایا جو کہ ایک اور بات ہے جو تورات میں ہے اور بخاری میں بھی اور ایسی اور بہت باتیں ہیں جنکو کعب الاحبار، وہب ابن منبہ اور اس جیسوں نے روایت کیا۔ الغرض ان باتوں کی جڑ اسرائیلات ہیں جنکو اہمیت نہیں دی جانی چاہئیے اور مسترد کیا جانا چاہئیے جب عقل سے اور صحیح احادیث سے موافقت نہ رکھتی ہوں۔
(1) التوراة، کتاب التکوین، باب 2، آیات 21 اور 22
(2) صحيح البخاري، رقم الحديث: 3331
(3) تفسير العياشي، ج 1، ص 216
(4) سورة النساء، آیت 1
(5) تفسير الميزان، ج 4، ص 136
Comments
Post a Comment